جینا مرنا یہاں ہے، آئی ایم ایف سے قومی مفاد کیخلاف کوئی بات نہیں ہوگی
اسٹیٹ بینک سے متعلق شور مچا ہوا ہے، آئی ایم ایف نے قرض کیلئے جو شرائط رکھیں اسٹیٹ بینک بھی ان میں ایک ہے، اسٹیٹ بینک سے متعلق بل پر پارلیمنٹ میں بحث ہوگی۔ وزیراعظم عمرا ن خان کی گفتگو
اسلام آباد(پاور نیوز نیٹ ورک ترین۔ 04 اپریل2021ء) وزیراعظم عمرا ن خان نے کہا ہے کہ جینا مرنا پاکستان میں ہے، آئی ایم ایف سے قومی مفاد کیخلاف کوئی بات نہیں ہوگی، اسٹیٹ بینک سے متعلق شور مچا ہوا ہے، آئی ایم ایف نے قرض کیلئے جو شرائط رکھیں اسٹیٹ بینک بھی ان میں ایک ہے، اسٹیٹ بینک سے متعلق بل پر پارلیمنٹ میں بحث ہوگی۔ انہوں نے ٹیلی فون پر براہ راست عوام کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنی قوم کو سمجھانا چاہتا ہوں یہ آئی ایم ایف کون سا جانور ہے، پاکستان ملا تو دوبڑے خسارے تھے، ایک آمدن اور اخراجات اور دوسرا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا، جب ہمیں پاکستان ملا تو 20ارب ڈالر کا خسارہ تھا، لیکن ہمیں قسطیں بھی دینی تھیں ، ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ہمیں قرض لینا پڑا، سب سے کم شرح سود پر آئی ایم ایف قرض دیتی ہے، جب آئی ایم ایف قرض دے دیتی ہے تو ورلڈ بینک ، اے ڈی بی بھی قرض دے دیتے ہیں، وہ تب دیتے ہیں جب آئی ایم ایف قرض کی چھاپ لگا دیتا ہے، آئی ایم ایف شرائط رکھتا ہے، کہ آپ کو یہ یہ کام کرنا ہوں گے، اگر کسی کو گھر کیلئے قرض لینا ہوتا ہے تو انسان کہتا ہے میں اپنے خرچے کم کردوں گا ، دکان کی آمدن سے قرض واپس کروں گا، آئی ایم ایف قرض دینے پہلے شرط رکھتا ہے کہ پیسے واپس کیسے کریں گے؟ ہم اگر کمرشل بینک کے پاس جائیں تو وہ سود ہم برداشت نہیں کرسکتے۔
پہلی بات تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ پچھلی حکومتوں کے قرضوں کا بوجھ ہم پر گر گیا، جب ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے تو ہم پر شرائط لگ گئیں۔ آئی ایم ایف نے شرائط رکھی ہیں اسٹیٹ بینک بھی ان میں ایک ہے۔ پاکستان کا اب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس میں چلا گیا ہے، آج روپیہ مضبوط ہورہا ہے، اگر خسارہ ہوتا تو روپے نے نیچے گرنا تھا۔اسٹیٹ بینک سے متعلق شور مچا ہوا ہے، یہ ابھی سرسری چیز ہوئی ہے، اس بل نے ابھی پارلیمنٹ میں جانا ہے، وہاں اس پر بحث ہوگی، میرے باہر کوئی بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں، میرا تو جینا مرنا پاکستان میں ہے۔پھرمیں کیسے پاکستان کے قومی مفاد کو نقصان پہنچاسکتا ہوں؟ ہاں اگر میری باہر اربوں کی جائیداد ہوتی تو میں بھی سوچتا کہ پاکستان ڈوبے گا تو میں باہر چلا جاؤں گا۔عوام بے فکر ہوجائیں، مجھ پر اعتماد رکھیں، آئی ایم ایف سے قومی مفاد میں بات کررہے ہیں۔ میں یہاں جینا مرنا ہے ، کچھ ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ اسی طرح ٹیلی فون پر براہ راست ایک کالر کے سوال”میں گھریلو خاتون ہوں، مہنگائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے، گزارا مشکل ہورہا ہے،سکولوں کی فیس دیں یا گھر کا خرچہ چلائیں،ڈالر کی قدر کم اور روپیہ بھی مستحکم ہوگیا ہے ، رمضان شریف آرہا ہے، بنیادی اشیاء کی قیمتیں کم نہیں ہورہیں، اگر آپ مہنگائی کو کم نہیں کرسکتے، تو پھر آپ جو پہلے د سے کہتے آرہے ہیں گھبرانا نہیں، تو پھر ہمیں گھبرانے کی اجازت دے دیں۔“کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ نے وہ بات کی جس پر ہماری ساری توجہ ہے، باقی ساری چیزیں ایک طرف مہنگائی ایک طرف ہے، مہنگائی انتظامیہ کا مسئلہ ہے، ایک مہنگائی یہ ہے کہ کسان اپنی سبزیاں ، پیداوار ایک قیمت پر فروخت کرتا ہے، لیکن جب وہ چیز مارکیٹ میں پہنچتی ہے تو اس میں بڑا فرق آجاتا ہے۔ مڈل مین سب سے زیادہ پیسے بنا رہا ہے، اس کا ہم توڑ لے کر آئے ہیں، ہم اب براہ راست چیزیں لوگوں تک پہنچائیں گے، مہنگائی کی تیسری وجہ روپیہ مہنگا ہونا ہے، ہمارے آنے سے قبل روپیہ 107روپے کا تھا، 2018ء میں بڑھ کر160روپے کا ہوگیا، اب معیشت مستحکم ہورہی ہے، روپیہ مضبوط ہوگیا ہے جس سے ڈیزل اور پٹرول کی قیمت کم ہوگئی ہے، ڈالر بڑھنے سے اس کا اثر بجلی پر بھی پڑا ،آدھی بجلی تیل سے بنتی ہے، جس سے بجلی مہنگی ہوگئی۔اور امپورٹڈ اشیاء مہنگی ہوگئیں۔ گندم میں خسارہ ہوگیا، ایک سال میں 40 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنا پڑی۔پاکستان میں مافیاز بیٹھے ہوئے ہیں، قائداعظم نے بھی ان کی بات کی تھی، یہ ذخیرہ اندوز اور سٹہ باز ہیں، چینی پڑی ہوتی ہے لیکن قیمت بڑھ جاتی ہے، مافیاز جان بوجھ کر مہنگائی کرتے ہیں۔انہوں نے کالر کا نام لے کرہدایت کی آپ گھبرانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ ہم اس پر سارا وقت کام کررہے ہیں، اس سال ہم انقلابی زرعی پالیسی لے کرآرہے ہیں سارا زرعی سیکٹر تبدیل کردینا ہے۔ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے پہلے پتا چل جائے گا کہ کس موسم میں کس چیز کی کمی ہوجاتی ہے اور بحران پیدا ہونے سے قیمتیں اوپر نہ چلی جائیں۔انشاء اللہ ہم مہنگائی پر قابو پاکر دکھائیں گے۔انہوں نے مزیدسوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ میں رمضان شریف میں ورزش روزہ افطاری سے پہلے کرتا ہوں، رمضان شریف میں سب کو ورزش کرنی چاہیے، رمضان شریف میں ورزش کے بغیر روزہ رکھنا ، مطلب آپ رمضان کو ضائع کررہے ہیں، یہ سو کر رمضان گزار دیتے ہیں ٹھیک نہیں، بلکہ رمضان المبارک کے بعد آپ کو ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے طاقت ملنی چاہیے، اگر آپ صحیح معنوں میں رمضان گزارتے ہیں۔انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ ہماری معیشت مستحکم اور روپیہ مضبوط ہورہا ہے، پاکستان میں پہلی بار ہوا ہم نے شوگرمافیا پر ہاتھ ڈالا، پہلے کبھی انکوائری نہیں ہوئی تھی، اب انتقامی کاروائیوں کا شور اٹھے گا ،ہم نے شوگر ملز میں 50فیصد شیئرز والوں کی تحقیقات کیں۔اس کا مقصد پاکستان کی عوام کو مہنگائی سے نکالنا ہے۔چینی جب 26سے بڑھتی ہے تو تھوڑے سے لوگوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔لوگ چائے پیتے ہی چینی کیلئے ہیں۔یہ طاقتور لوگ ہیں، ان کا ساری جماعتوں میں اثر رسوخ ہے، ان کی انکوائری ہوئی تو عدالتوں میں جاکر روکنے کی کوشش کی۔ اداروں میں بھی ان کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ہم نے پنجاب کے سٹہ بازوں کے بینک اکاؤنٹس سے 600ارب روپیہ پکڑا ہے، احتساب ہونا ہے، یہ جہاد ہے، میں عوام کیلئے لڑ رہا ہوں۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی پالیسی بنا رہے ہیں، جلد مہنگائی پر قابو پالیں گے۔پچھلی حکومت کے معاہدوں کے باعث مہنگی گیس خریدنا پڑ رہی ہے۔ اب کم داموں پر گیس لے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کرپشن ایک ایسی کینسر ہے جو صرف پاکستان میں نہیں بلکہ ہر غریب ملک میں پھیلی ہوئی ہے، کرپشن امیر ملک کو تباہ کردیتی ہے، ملائیشیاء کو مہاتیر محمد 500ڈالر سے آمدن کو اٹھا کر 9ہزار ڈالر پر لے گیا، وہاں کرپٹ وزیراعظم آگیا اور ملک کو مقروض کردیا، ایک حکمران کرپشن کرتا ہے، اقتدار میں آکر پیسا چوری کرتے ہیں اور حوالہ ہنڈی سے باہر آف شور اکاؤنٹس میں بھیجتا ہے، منی لانڈرنگ کرتے ہیں، محلات بناتے ہیں۔غریب ملکوں سے سالانہ ایک ہزار ارب ڈالر چوری ہوکر امیر ملکوں میں جاتا ہے، کمپنیز کے نام پر جہاں پیسا چھپایا جاتا ہے، ہماری طرح کے ملکوں کا 7ہزار ارب ڈالر باہر پڑا ہوا ہے، ہم پورا زور لگا رہے ہیں ہمارے ممالک کا پیسا واپس کریں، لیکن طاقتور ممالک کا فائدہ ہے وہ واپس نہیں کرتے، وہاں روزگار ہے ، لیکن یہاں تباہی ہے،کرپشن قانون سے نہیں لڑی جاتی، کرپشن قوم لڑتی ہے، غربت بڑھ جاتی ہے، عمران خان اکیلا کرپشن سے نہیں لڑ سکتا، عدلیہ نے کرپشن سے لڑنا ہوتا ہے، کئی آپ کے سامنے ہے، ایک مجرم کو ہم کہہ رہے 7ارب کا ضمانتی بانڈ دیں، لیکن ججز نے اس کو باہر بھیج دیا، عدلیہ ساتھ نہیں دے گی، تو ہم نہیں لڑسکتے، نیب نے کیسز بنانے ہوتے ہیں وہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، مہذب معاشرے کیسے کرپشن کی جنگ جیتتے ہیں؟ سنگاپور میں ایک وزیر نے کرپشن کی تو اس نے خود کشی کرلی، کیونکہ معاشرے میں ایسے بندے کو جگہ نہیں دی جاتی، لیکن یہاں کرپٹ لوگوں کو شادیوں پر بلایا جاتا ہے، نیب جیل سے کوئی کرپٹ باہر آتا ہے تو اس پر پھول نچھاور کرتے ہیں جیسا کوئی بڑا معرکہ مارا ہے، ہم نے جنگ جیتنی ہے، قانون سب سے بالا ہے۔اس جنگ میں پاکستان کی بقاء ہے، آج جو جنگ لڑی جارہی ہے یہ قانون کی بالادستی ہے، سب اکٹھے ہوکر مظاہرے کررہے ہیں، عمران خان کی حکومت گرادو، عمران خان کا کیا قصور ہے؟ کیونکہ این آراو نہیں دے رہا۔انہوں نیکہا کہ میں آپ لوگوں سے بڑی اہم بات کرنا چاہتا ہوں، کورونا کی تیسری لہر بہت خطرناک ہے، پہلی اور دوسری لہر کم خطرناک تھی، اللہ نے پاکستان پر خاص کرم کیا، یورپ ، امریکا، برازیل، ایران اور ہندوستان میں جس طرح کی لہر آئی اس طرح کی صورتحال ہوتی تو لاک ڈاؤن لگانا پڑنا تھا، اس سے غربت پھیلنی تھی، ہمیں اللہ کا ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے، یہاں ویسی صورتحال نہیں تھی۔لیکن اب تیسری لہر آئی ہے، بنگلا دیش اور یورپ میں بھی حالات خراب ہیں، یورپ میں ویکسین لگانے کے باوجود وہاں لاک ڈاؤن لگانا پڑا،میں اپنے ملک، لوگوں کیلئے خاص تاکید کرتا ہوں ، سب سے آسان چیز ماسک پہننا ہے، ماسک پہننے کا خرچہ بھی نہیں، فائدہ بھی ہے، ماسک پہننے کا سب سے زیادہ فائدہ ہے۔ لوگ بالکل پروانہیں کررہے ، اس سے خطرہ ہے کورونا پھیل نہ جائے، ہم فیکٹریاں نہیں بند کررہے، تھوڑی سی پابندیاں لگا کر کنٹرول کررہے ہیں، ماسک پہننے کی تاکید کرتا ہوں۔ ہمیں پتا ہے جب دنیا میں لاک ڈاؤن لگایا گیا، تو غربت میں اضافہ ہوا،ایک سال میں 15کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔اس لیے میں تاکید کرتا ہوں پبلک مقامات اور ٹرانسپورٹ کے دوران ماسک ضرور پہن کر رکھیں۔
0 Comments